جامعہ کا ایک دستور اساسی ہے جو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، اسی دستور کے مطابق جامعہ کے تمام انتظامی و تعلیمی امور سرانجام پاتے ہیں، دستور اساسی کے مطابق ایک مجلس شوریٰ ہے جو اکتیس افراد پر مشتمل ہوتی ہے، مجلس شوریٰ کو دستوری طور پر ہیئت حاکمہ کا مقام حاصل ہے، یہ مجلس جامعہ کے تمام امور سے متعلق فیصلہ کرنے کی مجاز ہے اور اس کے فیصلے ناطق اور واجب العمل ہوتے ہیں۔ مجلس شوریٰ میں اراکین کے علاوہ حسبِ ضرورت مدعوئین خصوصی کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے، دستور کے مطابق مجلس شوریٰ کا ایک صدر ہوتا ہے جسے مجلس شوریٰ منتخب کرتی ہے اس کے علاوہ مالی امور کی نگرانی کے لیے ایک منیجر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جامعہ کے اندرونی انتظامات کے لیے مجلس شوریٰ ایک مہتمم کا انتخاب کرتی ہے جو مجلس شوریٰ کا سکریٹری بھی ہوتا ہے۔ جامعہ کا مہتمم ایک باوقار، باحوصلہ اور متدین شخص کو منتخب کیا جاتا ہے، اپنی سوسالہ زندگی میں ابھی تک اس اہم منصب پر تین حضرات منتخب ہوئے ہیں۔
متوسلین و ہمدردانِ جامعہ کے لیے بجا طور پر یہ بات قابلِ فخر ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی جب کہ اخلاقی قدریں زمانے کی شدید گردشوں اور نیرنگیوں سے متاثر دکھائی دینے لگی ہیں۔ عظیم علمی و دینی شخصیتوں سے دنیا محروم ہوتی جارہی ہے۔ جامعہ کے مسند اہتمام پر ہمیشہ اس کی پوری زندگی میں ایسی متدین، قابلِ قدر مشہور و باعظمت شخصیتیں متمکن رہی ہیں جن کے تبحرِ علمی، اخلاق و دیانت اور انتظامی صلاحیتوں کے ہزاروں، لاکھوں بندگانِ خدا شاہد و معترف رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جامعہ کا اپنی زندگی کے ان سو سالوں میں ہر قدم ترقی ہی کی طرف بڑھا ہے۔ جامعہ کی زندگی کا ہر گزرنے والا سال اپنے ماسبق سے بہرصورت بہتر رہا ہے۔ سب سے پہلے ۱۳۴۴ھ میں اس عہدۂ جلیلہ کے لیے حضرت الحاج ڈپٹی عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ کی نظر التفات فدائے قوم و ملّت حضرت مولانا الحاج حشمت علی صاحب قدس سرہ پر پڑی اور اس دُرِ آبدار کو جامعہ اور اس کی قیادت کے لیے چُن لیا گیا اور حضرت مولانا کے عزم و استقلال اور انتظامی صلاحیتوں نے جامعہ کو تعلیمی و تعمیری ترقی کی معراج پر پہنچایا دیا۔ حضرت مولانا نے جس وقت جامعہ میں قدم رکھا اُس وقت جامعہ کا کل سرمایۂ حیات ایک استاد اور مقامی و بیرونی پانچ چھ طلبہ تھے اور تعمیری اعتبار سے جامعہ صرف تین کمروں کا نام تھا۔ جس وقت آپ نے ۱۳۷۵ھ میں کچھ اعذار کے سبب جامعہ کو خیر باد کہا۔ جامعہ کا احاطۂ قدیم تعمیری اعتبار سے نیچے کی اپنی منزل پوری کرچکا تھا جو ۳۲ کمروں، ایک مسجد اور اس کی سہ طرفہ، سہ دریوں پر مشتمل ہے نیز تعلیمی اعتبار سے قواعد ابتدائیہ سے لے کر جامعہ میں ہدایہ اولین و مختصر المعانی تک کی تعلیم کا عدیم المثال انتظام ہوچکا تھا۔
آپ کے اس دورِ اہتمام میں آپ کی ہر طرح سے جن حضرات اساتذۂ کرام نے معاونت فرمائی ان میں حضرت مولانا احمد حسن صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ بعدہ حضرت مولانا محمد اصغر صاحب رحمۃ اللہ صدر المدرسین جامعہ مولانا محمد حنیف صاحب رحمۃ اللہ جناب حافظ عبدالمجید صاحب رحمۃ اللہ نیز حافظ رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ سرِفہرست ہیں۔
ذی قعدہ ۱۳۷۵ھ میں رئیس الاہتمام حضرت الحاج مولانا حشمت علی صاحب بعض اعذار کی وجہ سے مستعفی ہوگئے تو اہتمام جیسے عہدۂ جلیلہ کے لیے کسی نعم البدل کی تلاش شروع ہوئی، اربابِ انتظام کی نظر حضرت مولانا محمد اصغر صاحب نوراللہ مرقدہ صدر مدرس جامعہ پر پڑی اور عارضی طور پر انتظام جامعہ باوجود شدید انکار کے حضرت کے سپرد کرایا گیا، یہ سلسلہ ذی الحجہ ۱۳۷۶ھ تک چلتا رہا۔
افتراق و تشتّت سے بھرپور اس دور میں جبکہ جامعہ کی بقا ہی کے لیے خطرات پیدا ہوچلے تھے، جامعہ کی نہ صرف سعیِ بقا بلکہ اس کے تعلیم و انتظام کی بہتری کے لیے جدوجہد یہ صرف حضرت رحمۃ اللہ کی پُرخلوص مساعی سے ہی ممکن ہوسکا۔ ایک طرف انتظام جامعہ کی ذمہ داری اور دوسری طرف تعلیم کی تمام تر ذمہ داریوں کا نباہنا یہ حضرت مولانا کا ہی حصہ تھا۔ اس دوران اہتمام پر آپ کے مستقل تقرر کے لیے ذمہ دارانِ جامعہ برابر کوشش کرتے رہے مگر مولانا مرحوم کا عہدوں کے حصول سے استغنا برابر رکاوٹ بنتا رہا اور مولانا اس کے لیے کسی طرح بھی تیار نہ ہوئے۔ آخرکار رئیس الاہتمام کے عہدۂ جلیلہ کے لیے قرعۂ فال حضرت الحاج مولانا محمد عمر صاحب کے نام نکلا اور مولانا کا اس عہدۂ جلیلہ پر تقرر عمل میں آگیا۔
مولانا کا دورِ اہتمام بلاشبہ جامعہ کے لیے ترقی کا خوبصورت دور رہا ہے۔ جامعہ نے مولانا موصوف کے دورِ اہتمام میں تعمیری اعتبار سے ایک قلعہ کی حیثیت اختیار کرلی۔ جامعہ کے صدر گیٹ کے اوپر دارالحدیث اور برابر میں درسگاہوں کی تعمیر مولانا مدظلہ کے دورِ اہتمام کا ہی کارنامہ ہے، آپ کے دور میں تعلیمی اعتبار سے بھی جامعہ نے کافی ترقی کی، یہ مولانا کی ہی مساعیِ جمیلہ کا ثمرہ تھا کہ جامعہ کی مجلس انتظامیہ نے دورۂ حدیث شریف کی تعلیم کی اجازت دی، یہ قدم بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہا، پہلے جامعہ میں کئی سالوں تک مشکوٰۃ شریف اور جلا لین شریف جیسی اہم حدیث و تفسیر کی کتابوں کا درس ہوتا رہا، اسی دوران ۱۳۸۹ھ میں ایک بار پھر حالات نے انگڑائی لی اور حضرت مولانا محمد عمر صاحب مدظلہ کی اس دیرینہ خواہش پر کہ ’’میں شعبۂ انتظام سے شعبۂ تعلیم میں جانا چاہتا ہوں‘‘ دوبارہ سابق رئیس الاہتمام حضرت مولانا حشمت علی صاحب رحمۃ اللہ کو یہ ذمہ داری سپرد کی گئی جو حضرت نے باوجود اپنی پیرانہ سالی کے مجلس انتظامیہ کے عظیم اصرار پر قبول فرمائی۔ حضرت اپنی اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔یہاں تک کہ ۱۳۹۶ھ میں حضرت رئیس الاہتمام اپنی پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے ایک بار پھر جامعہ سے سبکدوش ہوگئے۔ حضرت کا یہ دورِ اہتمام بھی جامعہ کے لیے قابلِ فخر اور ہمدردانِ جامعہ کے لیے باعثِ مسرت رہا۔ اس دور میں دارِ قدیم کی مشرقی بالائی تعمیر کے علاوہ ایک نئے دارالطلبہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ تعلیمی نظام میں بہتری ہوئی اور مالی طور پر جامعہ نے کافی ترقی کی۔ اب پھر رئیس الاہتمام کے عہدۂ جلیلہ کے لیے اربابِ انتظام کو کسی ایسی شخصیت کی تلاش شروع ہوئی جو بہرطور اس عہدے کے لیے مناسب و موزوں ہو۔ اولاً نظرِ انتخاب پھر حضرت مولانا محمد اصغر صاحب رحمۃ اللہ پر گئی مگر موصوف کے پیہم انکار پر قرعۂ فال حضرت مولانا محمد اختر صاحب موجودہ رئیس الاہتمام کے نام نکلا۔ اس وقت مولانا موصوف اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ جامعہ کی فلاح و ترقی میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ الحمدللہ جامعہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا مولانا موصوف کی مساعیِ جمیلہ اور پُرخلوص جدوجہد سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
مولانا موصوف کے گزشتہ چالیس سالہ دورِ اہتمام میں جہاں پندرھویں صدی ہجری کے آغاز پر دورۂ حدیث شریف کے اجرا کے ساتھ جامعہ نے اپنا ہدف حاصل کرلیا وہیں متعدد دوسرے اہم تعلیمی و انتظامی شعبہ جات کا اضافہ بھی ہوا جن میں دارالافتاء کا قیام، شعبۂ ادبِ عربی کا قیام، شعبۂ افتاء کا قیام اور شعبۂ نشر و اشاعت کا قیام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ طلبا و اساتذہ میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ ۱۳۹۶ھ میں جہاں طلباکی تعداد تین سو چار سو تک محدود تھی اور اساتذہ و دیگر ملازمین پر مشتمل عملہ دو درجن کے قریب ہوا کرتا تھا آج جامعہ میں طلبا کی تعداد اٹھارہ سو کے عدد کو چھو رہی ہے جبکہ اساتذہ و دیگر ملازمین کی تعداد اسّی سے اوپر ہے۔ ۱۳۹۶ھ میں جامعہ کا آمد و صرف جہاں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے تھا آج جامعہ کے آمد و صرف کا میزانیہ تین کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ تعمیری لحاظ سے بھی گزشتہ چالیس برسوں میں جامعہ نے کافی ترقی کی ہے۔ مولاناموصوف کے دورِ اہتمام میں جہاں دارِ جدید کی دو منزلہ عمارت کی تکمیل ہوئی وہیں احاطۂ مسجد میں سہ دریوں کی دوبارہ تعمیر مسجد کی مشرقی سردری پر دارالافتاء اور شعبۂ افتاء کے لیے درسگاہوں کی تعمیر، مسجد کی دوسری منزل اور سب سے اہم دارالقرآن کی تعمیر ہے جو طویل و عریض چالیس درسگاہوں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے اور جس کی تعمیر کے بعد الحمدللہ جامعہ کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ طلبا کی اقامت گاہوں کو درسگاہوں سے علاحدہ کرسکے، ماشاء اللہ یہ عمارت تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے اور امید ہے کہ آئندہ تعلیمی سال سے اس میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ گزشتہ سال ایک دارالحدیث کمپلیکس کا سنگِ بنیاد بھی رکھوا دیا گیا ہے جس میں ایک طویل و عریض دارالحدیث کے ساتھ ایک درجن سے زائد عربی درجات کے لیے درسگاہوں کا نظم کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اس اہم اور مبارک تعمیر کے لیے وسائل مہیا فرمائے، آمین! اس کمپلیکس پر فی الحال خرچ کا تخمینہ تقریباً تین کروڑ روپیہ ہے۔
جامعہ اسلامیہ کے اسلافِ کرام نے ہر دور میں دل محبتِ الٰہی سے، سینہ نورِ یقین سے، آنکھیں اسوۂ محمدی سے اور بدن خدمتِ خلق سے زندہ رکھا ہے۔ ہر عہد میں اہلِ نظر و صاحبِ بصیرت حضرات علماء کرام و مشائخِ عظام نے اس کا اعتراف کیا ہے ساتھ ہی جامعہ اسلامیہ کے موجودہ خدام نے بھی اپنے اسلافِ کبار کے اُسوۂ مبارکہ کو سامنے رکھ کر جو کچھ سمجھا ہے اسے مختصر ترین الفاظ میں ’’بروقت دین کی خدمت‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ جب سرزمینِ ریڑھی تاجپورہ پر اس جامعہ اسلامیہ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ دینی تعلیم و اشاعتِ اسلام کا نہ تھا تب بھی اسلافِ کبار کا یہ ہی دستور العمل تھا اور آج بھی بحمدللہ تعالیٰ یہ ہی دستور العمل ہے اور انشاء اللہ العزیز آئندہ بھی یہ ہی دستور العمل رہے گا۔ اس جامعہ کی نمایاں خصوصیت قرآنِ کریم کی تعلیم و اشاعت رہی ہے۔ اس کی طویل تاریخ اسی کتاب سے بے پناہ محبت کا زرّیں باب ہے۔ خدائے پاک ان مقدس اسلاف کے درجات بلند فرمائے جن کے طفیل ہمیں یہ سبق ملا۔ آمین