یہ جامعہ کا ایک اہم شعبہ ہے، اس شعبے میں آمد و خرچ کا مکمل اور تفصیلی حساب رکھا جاتا ہے۔ حساب کا طریقہ کچھ اس طرح مرتّب کیا گیا ہے کہ ایک پیسہ بھی اگر بھول چوک ہوجائے تو آخر میں اس کا بھی پتہ چل جاتا ہے جس میں خیانت اور لاپرواہی کے امکانات پوری طرح مسدود کردیے گئے تھے ہیں۔ صدقاتِ واجبہ اور غیر واجبہ میں امتیاز اور ان کے مصارف کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ جملہ حسابات کی تیاری ایک اکاؤنٹنٹ کے ذریعے کرائی جاتی ہے جس کی نگرانی میں نصف درجن محررین کام کرتے ہیں، کوئی خرچ بلا شخصِ مجاز کی منظوری کے نہیں ہوتا، آخر میں مجلسِ شوریٰ کا مقرر کردہ منیجر پوری جانچ پڑتال کے بعد واؤچرس اور آمد و صرف کے رجسٹروں پر اپنے تصدیقی دستخط ثبت کرتا ہے۔
جامعہ کی آمد و خرچ کا سالانہ میزانیہ تیار کیا جاتا ہے اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد وہ نافذ العمل ہوتا ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ذریعے حسابات کا ہر سال آڈٹ کرایا جاتا ہے جس کی تفصیلی رپورٹ مجلسِ شوریٰ کے روبرو پیش کی جاتی ہے۔
جامعہ ہٰذا ایک صدی کی طویل ترین مدت سے قائم ہے اور برابر اپنے فیض سے عوام و خواص کو مستفیض کررہا ہے۔ یہ سب کچھ محض فضلِ خداوندی اور اس کے اسلاف کی خلوص نیتی کی روشن دلیل ہے۔ تاہم بدرجۂ اسباب خدام جامعہ نے اپنے اسلافِ کرام کے اُسوۂ حسنہ اور ان کی ہدایات کے تحت عوام و خواص کے مالی تعاون کو بھی فضلِ الٰہی تصور کرکے جامعہ کے لیے قبول کیا ہے اور استعمال کیا ہے۔ الحمدللہ اس سلسلے میں بھی جامعہ کا ہر سال اپنے پیشرو سال سے عوام و خواص کی توجہات میں اضافہ جاری رکھتا ہے۔ جس وقت یہ جامعہ قائم ہوا اس کا سالانہ آمد و صرف محض ایک سو روپے تھا اور آج جبکہ یہ اپنا صدسالہ تعلیمی سفر مکمل کررہا ہے اس کا سالانہ میزانیہ تین کروڑ روپے کے عدد سے تجاوز کرچکا ہے جو محض فضلِ خداوندی کے سہارے عوام کی معمولی معمولی رقموں سے پورا ہورہا ہے۔