Select Language

بانیان

جناب الحاج ڈپٹی عبدالرحیم صاحب نوراللہ مرقدہ وبرداللہ مضجعہ کے مقدس ہاتھوں میں دے کر اطمینان کا سانس لیا۔ دوسری طرف حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کی نظر کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں سرگرداں ہوگئی جو ہمہ وقت اس جامعہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سنبھال کر جامعہ کی تعلیمی و انتظامی ضرورتوں کی تکمیل میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کا ہاتھ بٹا سکے۔ چنانچہ رحمتِ الٰہی نے حاجی صاحبرحمۃ اللہ کی اس طلب و جستجو میں دستگیری فرمائی اور حاجی صاحبرحمۃ اللہ کی نظرِ تجسّس ایک ایسی شخصیت پر مرکوز ہوگئی جو اگرچہ اس وقت تک ایک طالبِ علم کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند سے وابستہ تھے مگر ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ڈپٹی صاحبرحمۃ اللہ کے ہمراہ قومی و ملّی خدمات میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے تھے۔

اور یہ شخصیت تھی خدائے قوم و ملّت حضرت الحاج مولانا حشمت علی صاحب نوراللہ مرقدہ مجاز بیعت و ارشاد حضرت مولانا محمد اسعد صاحب مدنی رحمۃ اللہ کی۔ حضرت ڈپٹی صاحب رحمۃ اللہ نے حضراتِ علماء کرام و مشائخِ عظام کے مشورہ سے حضرت مولانا حشمت علی صاحب رحمۃ اللہ کو انتظام و انصرام جامعہ کے لیے مدعو فرمایا اورآپ نے اس دعوت کو قبول فرماکر نہ صرف یہ کہ اپنی سعادت مندی کا ثبوت دیا بلکہ قوم و ملّت کے اس خورد سال مکتب کو اپنی مخلصانہ مساعی سے ایک ایسے عظیم الشان ادارے اور جامعہ میں تبدیل کردیا جو اپنی تعلیمی روایات میں نہ صرف ا پنے ہم عصروں پر فوقیت لے گیا بلکہ اپنے پیش روؤں کے لیے بھی قابلِ فخر روایات قائم کردیں۔

آج آپ کا یہ جامعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی طور پر اپنی تعلیمی بہتری کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے اور تعمیری طور پر بھی یہ جامعہ جس کی ابتدا خس پوش مکانوں سے ہوئی تھی، آج ایک قلعہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ تو گویا حضرت الحاج ڈپٹی عبدالرحیم صاحب کی سرپرستی اور حضرت الحاج مولانا حشمت علی صاحب رحمۃ اللہ کی رہنمائی اس جامعہ کے لیے دو عظیم آثارِ رحمت تھے اور اہل اللہ حضرات کی وہ دعا جو انھوں نے جامعہ کی بقا و ترقی کے لیے بارگاہِ صمدیت میں فرمائی تھی، شرفِ قبولیت سے نوازی گئی تھی۔ فالحمدللّٰہ علی ذٰلک۔