ہندوستانی مسلمانوں کو قرآنِ کریم کی تعلیم سے ہمیشہ جو تعلق رہا ہے اس کی وجہ سے مورخین کو یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ’’قرآن عرب میں نازل ہوا، مصر میں پڑھا گیا اور ہندوستان میں سمجھا گیا‘‘۔
جامعہ اسلامیہ کے ناتواں خدام نے اس تاریخی حقیقت کو زندہ رکھنے کا عزم کرلیا ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں فی الحال قرآنِ کریم کے طلبا کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب ہے جن میں وہ بھی ہیں جو ابھی ناظرہ خوانی میں مشغول ہیں، وہ بھی ہیں جو حفظِ کلام اللہ کی سعادت حاصل کررہے ہیں اور وہ بھی ہیں جو حفظ سے فارغ ہوکر کلام اللہ کی تجوید و تحسین میں مشغول ہیں اور وہ سعادت مند بھی ہیں جو قرآنی علوم کے درس و مطالعے میں اپنی عمرِ عزیز کا بہترین حصہ صرف کررہے ہیں۔
قابلِ مبارک باد ہیں امتِ مسلمہ کے وہ نونہال جو وعدۂ ربانی وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْن کی تکمیل کا ذریعہ بنیں گے اور قابلِ صد تحسین ہیں وہ ہاتھ جو ایسی جماعت کی امداد و اعانت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ کا نظامِ تعلیم کچھ اس طرح سے تیار کیا گیا ہے کہ ’’کم وقت میں زیادہ کام‘‘ والی بات کا مصداق بن گیا ہے۔ تعلیمِ قرآن سے فراغت کے بعد اردو، ہندی، حساب، جغرافیہ، علومِ دنیویہ اور عربی نصاب میں داخلے کے خواہشمند طلبائے عزیز اس نصاب سے بڑی خوش طبعی سے فراغت پاکر اپنے دین و دنیا کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
پرائمری درجات میں طلبا علومِ دنیویہ میں اس درجہ مہارت حاصل کرلیتے ہیں کہ دنیوی کاروبار کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ یہ نصاب جامعہ ہٰذا میں صرف تین سال میں پورا کرادیا جاتا ہے۔ عربی درجات کے نصابِ تعلیم کو جو نحو، صرف، منطق، فقہ، اصولِ فقہ، کلامِ معانی، حدیث و تفسیر پر مشتمل ہے صرف چھ سال میں پورا کرایا جاتا ہے۔
تنہا نصابِ تعلیم اور کتابیں ذہن کی تعمیر اور زندگی کی اصلاح کے لیے کافی نہیں ہوتیں، تاوقتیکہ طالبِ علم کے لیے خالص دینی ماحول میسر نہ ہو۔ ’’ماحول‘‘ ہی دراصل ہمارے ان دینی مدارس کی بنیادی ضرورت ہے۔ جامعہ اسلامیہ کے طلبائے عزیز کو الحمدللہ ہمہ وقت یہ دینی ماحول میسر رہتا ہے۔ جامعہ کے طلبائے عزیز کی شب و روز کی زندگی کا اگر نقشہ مرتّب کرنا ہو تو اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ صبح اذانِ فجر سے قبل بیداری، بعد نمازِ فجر تلاوتِ کلام اللہ شریف، اس کے بعد مسلسل چار گھنٹے درس و تدریس، اس کے بعد کھانا، کھانے کے بعد شام کے اسباق و خواندگی سابقہ کی تیاری۔ بعد نمازِ ظہر پھر مسلسل دو گھنٹے تعلیم میں مشغولی۔ بعد نمازِ عصر مناسب ورزش اور کھانا وغیرہ سے فراغت اور بعد مغرب تا ۱۱ بجے شب تکرار و مطالعہ یا تلاوتِ کلام اللہ میں مشغولی۔ رات کا بقیہ حصّہ استراحت کے لیے مخصوص ہے۔
اسی اقامتی نظم کی بدولت الحمدللہ جامعہ سے فارغ ہوکر نکلنے والے طلبائے عزیز عوام کی نظروں میں نہ صرف مقبول و محبوب ہوتے ہیں بلکہ ان کو امامت و خطابت اور درس و تدریس کے لیے دیگر اداروں کے فارغین پر فوقیت دی جاتی ہے۔
طالبِ علم عموماً کم عمر اور ناسمجھ ہوتا ہے، اس لیے یہ سمجھ لینا کہ دینی ماحول اس کے لیے کافی ہے، ایک طرح کی ناعاقبت اندیشی ہے۔ چنانچہ جامعہ کے اربابِ انتظام نے بدرجۂ سبب اس کے لیے دو باتیں اختیار کررکھی ہیں، ایک تعلیم و استعداد کی سخت نگرانی، دوسرے طلباء کے ہاتھ اور پیسے پر سخت احتساب۔
تعلیم کے سلسلے میں ہفتہ وار، ماہوار، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ امتحانات کا سلسلہ جاری ہے اور اخراجات کے سلسلے میں ہر طالبِ علم کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنا پورا پیسہ کسی بھی استاد کے پاس جمع کردے اور بلاضرورت بتائے کوئی پیسہ نہ نکالے۔ ادھر اساتذۂ کرام کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بلا ضرورت معلوم کیے طلبہ کو ان کی رقم میں سے کوئی پیسہ نہ دیں اور صرف جائز ضرورتوں کے لیے دیں۔ اس طرح طالبِ علم خود کو اخراجات کے لیے جواب دہ تصور کرتا ہے اور زیادہ رقم نکلوانے سے رُکتا ہے۔ تو گویا تعلیم و اخراجاتی احتساب جامعہ میں تربیت و تعلیم کی بہتری کا ایک مناسب ذریعہ ہے۔