جامعہ ہٰذا کا قیام ’’مدرسہ تعلیم القرآن‘‘ کی شکل میں ۱۳۳۶ھ میں بدست الحاج مولانا منشی علی محمد صاحب پانڈولوی رحمۃ اللہ عمل میں آیا۔ مولانا مرحوم ایک دردمند شخصیت کے حامل تھے، مختلف مقامات پر درس و تدریس کا فریضہ انجام دے چکے تھے، عمر کے آخری حصے میں ان کے دل میں مدسہ کے قیام کا جذبہ پیدا ہوا، موضع ریڑھی میں پہلے سے ہی حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ اس سلسلے میں کوشاں تھے، مولانا مرحوم نے ۱۳۲۷ھ میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اولاً اپنا یہ خیال اہالیانِ موضع ریڑھی کے سامنے رکھا اور پھر چند معزز حضرات کو لے کر رائے پور حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ نے مولانا مرحوم کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کامیابی کے لیے دعا فرمائی مگر افسوس مولانا مرحوم کی یہ تجویز قوم میں عمومی جہالت اور کمزور دور اندیشی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی جس کے بعد مولانا مرحوم اپنی کاشتکاری وغیرہ کے کاموں میں مشغول ہوگئے تاہم ان کی یہ فکر جاری رہی اور وہ لوگوں کو حسبِ موقع اس کے لیے تیا رکرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ابھی مولانا مرحوم اس سلسلے میں کوشاں ہی تھے کہ اسی دوران مولانا الحاج منشی علی محمد صاحب رحمۃ اللہ تشریف لے آئے جو پہلے سے ہی دینی تعلیم کے کسی ادارے کے قیام کو اپنا خاص موضوع بنائے ہوئے تھے۔ انھوں نے پہل قدمی کرتے ہوئے ریڑھی اور تاجپورہ کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ کی اس سعیِ جمیلہ کو جلد از جلد عملی جامہ پنائیں، چنانچہ مشورہ کے بعد مولانا منشی علی محمد صاحب رحمۃ اللہ نے عیدگاہ ریڑھی محی الدین کے شمال کی جانب ایک مقام پسند کرکے وہاں کھلے آسمان کے نیچے بچوں کی تعلیم کا نظم کردیا اور خود ہی دونوں گاؤں کے بچوں کو تعلیم دینا شروع کردی، کچھ دنوں بچوں کی تعلیم کا یہ سلسلہ کھلے آسمان کے نیچے درختوں کے سائے میں چلتا رہا اس کے بعد اہلِ قریہ کے تعاون سے وہاں ایک چھپر کا انتظام کردیا گیا، کچھ دن تعلیم کا یہ سلسلہ چھپر کے زیرِ سایہ چلا کہ اچانک ایک روز وہ چھپر بھی آگ کی نذر ہوگیادوبارہ چھپر ڈالنے کی تجویز سامنے آئی مگر کچھ اصحابِ خیر حضرات کی فرمائش پر اہلِ قریہ نے طے کیا کہ مدرسہ کے لیے پختہ عمارت کا انتظام کیا جائے اس کے لیے مبارک علی نامی شخص نے پہل کرتے ہوئے تقریباً سوا بیگھہ کا ایک قطعۂ زمین مدرسے کی عمارت کے لیے دے دیا جس پر جنوبی سمت میں تین پختہ کمرے تعمیر کیے گئے جو اپنی ابتدائی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہیں، اس کے بعد مدرسہ ربیع الاول ۱۳۳۷ھ میں اس عمارت میں منتقل ہوا جہاں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا مدرسہ کا یہ ہی پہلا سال ہے۔
جب مدرسہ میں مطبخ کا نظام قائم ہوا جس میں مدرسہ میں مقیم بچوں اور اساتذہ کے لیے کھانا تیار ہوتا تھا یہ سلسلہ تقریباً چار سال جاری رہا مگر پھر حالات نے کروٹ لی، شیطان نے اپنا کام کیا اور گاؤں کے باہمی نزاع کا شکار ہوکر علم کا یہ نوخیز پودا بادِ سموم کا شکار ہوگیا تاہم بفضلِ ایزد باری شیطان کا یہ کھیل جلد ہی ختم ہوگیا، قدرت کی کرشمہ سازی ملاحظہ فرمائیں کہ کچھ عرصہ قبل جو لوگ مدرسہ بند ہونے کے ذمہ دار تھے انھوں نے خود ہی مردِ مومن، مخلص باصفا مصلح قوم الحاج ڈپٹی عبدالرحیم صاحب نوراللہ مرقدہ سے موضع ریڑھی میں ان کی اور بانیِ جماعتِ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب قدس سرہ کی بسلسلۂ اصلاح و تبلیغ آمد کے موقع پر درخواست کی کہ وہ مدرستہ تعلیم القرآن کو اپنی سرپرستی میں لے کر اس کی نشاۃِ ثانیہ فرمادیں، جسے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ کی سفارش پر حضرت ڈپٹی صاحب رحمۃ اللہ نے قبول فرمالیا، آپ نے مدرسہ ہٰذا کو اپنی سرپرستی میں لیتے ہی اسے دوبارہ شروع کرایا اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں برکت عطا فرمائی اور تعلیمی و تدریسی کام دو سال کے عرصے میں ہی کافی بڑھ گیا جس کے لیے آپ نے ایک آئین مقرر کرکے ایک نظام قائم فرمایا جس کی سربراہی و اہتمام کے لیے حضرت ڈپٹی صاحب کو اب کسی ایسے مردِ مجاہد کی ضرورت تھی جو اس نوخیز ادارے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔
اہالیانِ ریڑھی تاجپورہ نے آپ کا یہ جامعہ مخلص باصفا جناب الحاج ڈپٹی عبدالرحیم صاحب نوراللہ مرقدہ وبرداللہ مضجعہ کے مقدس ہاتھوں میں دے کر اطمینان کا سانس لیا۔ دوسری طرف حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کی نظر کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں سرگرداں ہوگئی جو ہمہ وقت اس جامعہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سنبھال کر جامعہ کی تعلیمی و انتظامی ضرورتوں کی تکمیل میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کا ہاتھ بٹا سکے۔ چنانچہ رحمتِ الٰہی نے حاجی صاحبرحمۃ اللہ کی اس طلب و جستجو میں دستگیری فرمائی اور حاجی صاحبرحمۃ اللہ کی نظرِ تجسّس ایک ایسی شخصیت پر مرکوز ہوگئی جو اگرچہ اس وقت تک ایک طالبِ علم کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند سے وابستہ تھے مگر ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ڈپٹی صاحبرحمۃ اللہ کے ہمراہ قومی و ملّی خدمات میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے تھے۔
اور یہ شخصیت تھی خدائے قوم و ملّت حضرت الحاج مولانا حشمت علی صاحب نوراللہ مرقدہ مجاز بیعت و ارشاد حضرت مولانا محمد اسعد صاحب مدنی رحمۃ اللہ کی۔ حضرت ڈپٹی صاحب رحمۃ اللہ نے حضراتِ علماء کرام و مشائخِ عظام کے مشورہ سے حضرت مولانا حشمت علی صاحب رحمۃ اللہ کو انتظام و انصرام جامعہ کے لیے مدعو فرمایا اورآپ نے اس دعوت کو قبول فرماکر نہ صرف یہ کہ اپنی سعادت مندی کا ثبوت دیا بلکہ قوم و ملّت کے اس خورد سال مکتب کو اپنی مخلصانہ مساعی سے ایک ایسے عظیم الشان ادارے اور جامعہ میں تبدیل کردیا جو اپنی تعلیمی روایات میں نہ صرف ا پنے ہم عصروں پر فوقیت لے گیا بلکہ اپنے پیش روؤں کے لیے بھی قابلِ فخر روایات قائم کردیں۔
آج آپ کا یہ جامعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی طور پر اپنی تعلیمی بہتری کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے اور تعمیری طور پر بھی یہ جامعہ جس کی ابتدا خس پوش مکانوں سے ہوئی تھی، آج ایک قلعہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ تو گویا حضرت الحاج ڈپٹی عبدالرحیم صاحب کی سرپرستی اور حضرت الحاج مولانا حشمت علی صاحب رحمۃ اللہ کی رہنمائی اس جامعہ کے لیے دو عظیم آثارِ رحمت تھے اور اہل اللہ حضرات کی وہ دعا جو انھوں نے جامعہ کی بقا و ترقی کے لیے بارگاہِ صمدیت میں فرمائی تھی، شرفِ قبولیت سے نوازی گئی تھی۔ فالحمدللّٰہ علی ذٰلک۔
تاریخ نے اولولعزمیوں، جوان ہمتیوں اور بلند و پختہ عزائم کے بے شمار واقعات و مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، لیکن تاریخ کے اوراق ایسے واقعات سے بہت کم آشنا ہوئے ہوں گے جن میں عظیم الشان انتہائی وسیع مقاصد اور بلند پایہ پروگرام مرتّب کرتے وقت مالی انتظام و دنیاوی وسائل کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ معمولی سے معمولی ادارہ یا جماعت کا قیام بانئین و مؤسسین کو اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کی مالی ضرورتوں کا پیشگی انتظام کیا ہوگا، لیکن جامعہ جیسے عظیم الشان ادارے کی بنیاد رکھتے وقت اکابر امت کو اس کی کوئی فکر لاحق نہ ہوئی کہ یہ ادارہ اپنے روزمرہ کے اخرجات اور مصارف کو کس طرح پورے کرے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ مسبّب الاسباب پر جن لوگوں کی نظر ہو، خدا وند قدوس ان کو خود ہی اسباب و وسائل کے تجسس سے بے نیاز فرمادیتے ہیں۔ اکابر جامعہ کے اس توکل و قناعت کی وہ روشنی جو ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ذمہ دارانِ جامعہ کے سینوں میں جلوہ فگن ہے، جب جب جامعہ کو صعوبتوں اور مشکلات نے گھیرا تو توکل و قناعت کی یہ مشعلِ تاباں کارپردازانِ جامعہ کی نگاہِ امید کا مرکز بن گئی اور انھیں گھٹاٹوپ اندھیروں سے چمکتا ہوا سورج نکلا۔ بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ ذمہ دارانِ جامعہ کو مالی ضرورتیں پورا کرنا مشکل معلوم ہونے لگا، مگر تائید ایزدی نے دستگیری کی اور منٹوں میں تمام اخراجات کا انتظام فرمادیا۔
۱۳۳۶ھ جامعہ کی زندگی کا پہلا سال اور وہ اولین منزل ہے جس میں جامعہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سال جامعہ کا بجٹ کم و بیش ایک سو روپیہ سے بھی کم تھا، یہ رقم بھی اللہ کے نیک و درد مند بندوں کے جذبۂ ایثار سے میسر آتی تھی اور آج ایک سو سال بعد جب کہ اس عظیم بین الاقوامی درسگاہ کا سالانہ خرچ ساڑھے تین کروڑ روپیہ کے قریب ہے، تب بھی اس کے اخراجات کے لیے کسی مستقل آمدنی یا مستقل ذرائع و وسائل کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ عام لوگوں کے مخلصانہ عطیات سے ہی تمام اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
۱۳۸۷ھ میں جب جامعہ اپنی تاسیس کے پچاس سال پورے کررہا تھا اور اس وقت بانیانِ کرام کے خلوص اور منتظمین قوم کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ ادارہ اپنے تعلیمی، تعمیری و انتظامی شعبہ جات کی وسعت و ہمہ گیری کی وجہ سے مدرسے سے ایک جامعہ کی شکل اختیار کرچکا تھا تو مجلسِ شوریٰ جامعہ کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ تعلیمی و تعمیری اور انتظامی شعبوں کی ہمہ گیری کے ساتھ مدرسہ کا سابقہ نام برقرار رکھا جائے یا اس کے ساتھ اس کی ہمہ جہتی وسعت کے اظہار کے لیے اسے جامعہ کے نام سے موسوم کیا جائے، جہاں ایک طرف مدرسہ کا پچاس سالہ بینر تھا جس کے نیچے اس نے مسلسل پچاس برسوں تک بابرکت علمی و دینی خدمات انجام دی تھیں وہیں دوسری طرف اس کی ہمہ جہت ترقی و وسعت کے تقاضے تھے، بہرحال کافی غور و خوض اور بحث و مباحثہ و استصوابِ رائے کے بعد مدرسہ کا نام تبدیل کرکے ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ رکھنے کا مبارک فیصہ کیا گیا، نام کی یہ تبدیلی جس جذبۂ خیر کے تحت عمل میں لائی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس جذبے کو قبولیت سے نوازا اور آج آپ کے سامنے جو ادارہ اپنے دینی، علمی، تربیتی اور اصلاحی جلوے بکھیر رہا ہے بحمداللہ تعالیٰ وہ بتوفیقِ پروردگارِ عالم پوری طرح کسی جامعہ کے ہی شایانِ شان کہے جاسکتے ہیں۔